Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 5

تصبیہا کو موصب کہ کمرے میں لایا گیا ۔ وہ بہت خوبصورت اور بڑا کمرا تھا ۔وہاں کی ہر چیز قیمتی تھی جس کا دیکھتے ہی اندازہ ہورہا تھا۔تصبیہا کمرے دیکھ رہی تھی جب موصب اندر آیا ۔ تصبیہا نے دروازے کی طرف دیکھا تو موصب کو دیکھ کر اس کی آنکھیں کھول گئیں ۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا نکاح اس شخص سے ہوا ۔۔۔۔۔)

تم۔۔۔۔۔۔(وہ صدمے سے بولی )

(موصب دروازہ بند کرکہ آیا اور بیڈ کہ کنارے پر کھڑا ہوکر بولا ۔)

ہاں میں ۔۔۔کیوں کیا ہوا ۔۔۔دولہا پسند نہیں آیا۔۔(وہ کہہ کر مسکرایا ،تصبیہا کچھ نہیں بولی بس اسے دیکھتی رہی۔)

کیا سوچ رہی ہو ۔آج کچھ بولو کگی نہیں ،اس دن تو بہت بول رہیں تھیں ۔ (موصب کا لہجہ کاٹدار تھا جیسے تصبیہا نے صاف محسوس کیا )

وہ سب میں غلطی سے آپ کو کہہ گئی تھی ۔ میں سمجھی تھی کہ آپ حمزہ ہیں ۔ایم سوری ۔(اس نے صفائی دینی ضروری سمجھی تو بولی۔)

تم معافی کیوں مانگ رہی ہو ۔(موصب دوقدم بڑھا کر اس کی طرف آیا اور اس کی آنکھوں میں جھنکتے ہوئے بولا)

نہیں میری غلطی تھی مجھے پہلے کنفورم کرنا چاہیے تھا ۔(تصبیہا شرمندہ تھی )

وہ غلطی نہیں تھی گناہ تھا ،جس کی سزا تمہیں بھگتنی پڑے گی ۔۔(موصب نے اس کا بازو اتنی زور سے پکڑا کہ تصبیہا کو محسوس ہوا کہ اس کی انگلیاں اس کے ہاتھ میں پیوست ناہوجاہیں ۔ وہ غراتے ہوئے بولا )

چھوڑو مجھے ۔(وہ درد سے چلائی ۔مگر اس پر کوئی اسر نہیں ہوا)

کیا مطلب ہے تمہارا اور اور۔۔۔یہ سب کیا ہے چھوڑو مجھےےےے(وہ اپنے آپ کو چھوڑوانے لگی)

(موسب نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑا تو وہ بیڈ پر جاگری)
مطلب یہ ہے کہ تمہاری شادی میں نے توڑوائی ہے ۔علی کسی کوپسند نہیں کرتا تھا اسے میں نے کڈنیپ کروایا تھا ،دودن اپنے پاس اس کی خدمت کی پھر جاکہ وہ بولنے پر راضی ہوا تھا اور اس نے اپنے گھر فون کرکہ وہ سب بولا تھا ۔(موصب نے ایک ایک لفظ چبہ کربولا)

(تصبیہا اسے بے یقینی سے دیکھتی رہی پھر بولی )مگر کیوں ؟ میں نے ایسا کیا ہے ؟
کیا کیا ہے ۔یہ تم پوچھ رہی ہو ۔۔۔ہاں میری اتنی بےعزتی،میرے ہی ہوسپتل میں اتنے لوگوں کے سامنے کرنے کہ بعد تم پوچھ رہی ہو میں نے کیا کیا ہے۔۔۔

میں نے کہا تو ہے کہ وہ سب انجانے میں ہوا تھا میں نے ۔،۔۔۔۔(تصبیہا بول رہی تھی کہ اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا)'

اینف ۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے تم مجھے بولو گی سوری اور میں تمہیں معاف کردوں گا ۔ تمہیں یہاں لا یا ہی اسی لیے ہوں کہ دور رہ کر تو تم سے بدلہ نہیں لے سکتا تھا ۔اسی لیے میں نے یہ پلین بنایا تھا ۔علی کہ بارے پتا لگوایا پھر اسے اٹھوایا اتنا سب میں نے تمہارا سوری سننے کہ لیے نہیں کیا ہے ۔(وہ غصے سے بولا اس کی انکھیں سرخ تھیں دماغ کی نسیں ابھری ہوئی تھیں مگر تصبیہا نے کوئی نا لیتے ہوئے کہا)

تم سایکو تو نہیں ہو ۔۔۔مطلب ایسا کون کون کرتا ہے اتنی سی بات پر تم نے یہ سب کیا ۔۔۔۔(وہ بھی غصے سے بولی اور زور سے بولی )

آواز ہلکی رک کربات کرو ورنہ (موصب نے غراکر اسے بولا اور اس کا ہاتھ پکڑا تو اس بار تصبیہا نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھڑوایا اور زور سے ہی بولی)

ورنہ ۔۔۔ورنہ کیا ،،ہاں ۔۔کیا کرو گے ۔ہممم تم سمجھتے ہو کہ مجھ سے شادی کرکہ مجھے ٹورچر کرو گے اور میں چوپ چاپ سب کچھ برداشت کرلوں گی ۔۔۔۔سوچ ہے تمہاری ۔۔(وہ کہہ کر طنزیہ مسکرائی )

پرندہ جب قید ہوتا ہے نا تو تھوڑا پھڑپھڑاتا ضرور ہے ،بولو جو بولنا ہے ۔۔۔(موصب کہہ کر سامںے صوفے پر گرنے کہ انداز میں بیٹھا تھا )

یعنی تم مجھے قید کرو گے ۔۔۔تصبیہا تو ۔۔۔۔تم مجھے جانتے نہیں ہو کہ میں ہو کیا چیز ۔تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں یہاں ایک منٹ بھی اور روکوں گی ۔۔۔(وہ کہہ کر آگے بڑھی تو موصب اس کے آگے آگیا اور بولا )
کیا کہو گی اپنے بابا سے کہ کیوں واپس آگئیں تم ۔۔ہممم (انکھوں میں شیطانیت لیے وہ بولا)

(تصبیہا کچھ بولی نہیں بس اسے گھورتی رہی )

کچھ گھنٹے پہلے ایک لڑکے نے تم سے شادی سے انکار کردیا اور جس سے شادی ہوئی وہاں سے بھی کھچ ہی گھنٹوں میں واپس آگئیں وہ بھی طلاق لے کر پھر کیا کریں گے بچارے تمہارے ماں باپ ۔۔۔چچچچ اور مجھ سے کسی نے کچھ پوچھا تو میں تو صافف کہہ دوں گا کہ تمہارا کردار اچھا نہیں تھا تم۔۔۔۔۔(وہ اگے کچھ بولتا کہ تصبیہا غصے سے چیخی )

مؤصب ۔۔۔تم اتنے گرسکتے ہو۔

کیا موصب ہممم ۔۔۔ جب یہ سب تمہارے ماں باپ کوپتا چلے گا کہ تمہارا افیر کسی کہ ساتھ ہے اور شادی کی رات تم اس سے ملتے ہوئے پکڑی گئی ہو توووووو۔۔۔۔(فل ڈرامائی انداز میں وہ بولا )

میں تمہارے موم ڈیڈ کو بتاتی ہوں کہ تم ۔۔۔۔ (اس کہ خیالات سن کر وہ واقع ڈر گئی تھی ۔کیا ہوتا اگر ابھی وہ شورمچا کر سب کو جھوٹی کہانی بتادے ۔)

شوق سے بتاو مگر اس سے پہلے اپنا دماغ استعمال کرو کیا وہ تمہارا یقین کریں گے ؟تم یہاں میری وجہ سے ہو،اگر میں ہی کہہ دو کہ۔۔۔۔۔پھر دھکے مار کہ نکال دیں گے تمہیں ۔۔۔(سنیے پر ہاتھ باندھ کر وہ اس سامنے کھڑا تھا ،تصبیہا کا دل کیا کہ اس کہ لمبے بال پکڑ کر دیوار میں ماردے ۔۔۔۔غصے سے مٹھیاں بیبھج لیں )

(تصبیہا کہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔۔۔۔اس کی بکواس سنے بغیر یہ چلی بھی گئی اور اس نے آگے سے اس کے کریکٹر کہ بارے میں الٹا سیدھا بول دیا تو وہ کیسے اپنی صفائی دے گی ۔ اس کا دماغ معاوف ہورہا تھا ۔اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ۔)

(موصب چپ چاپ اس کہ چہرے کہ اتار چڑھاو دیکھ رہا تھا ۔غصے نے اس کے چہرے پر لالی بیکھیر دی تھی، پیلے رنگ اس کی رنگت کو اور نکھار رہا تھا ۔)

بہتغلط کر رہے ہو تم ۔اس کا انجام بہت برا ہوگا ۔تصبہیا دوستی نبھائے یا نا نیبھائے مگر دشمنی بہت اچھی اچھی نیبھاتی ہے۔۔۔ (وہ آگے بڑھنے لگی جبھی موصب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر قریب کیا اور اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا )

بسٹ اوف لک بیبی ۔۔۔(تصبیہا نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور واش روم چلی گئی ۔)

دس منٹ کے بعد بج وہ واپس آئی تو وہ بلیک ٹروزر میں ٹی شررٹ پہنے پورے بستر پر لیٹا تھا ۔تصبیہا نے گھورا اور صوفے کی طرف بڑھ گئی۔ موصب اسے ہی دیکھ رہا تھا ،اسے صوفے پر لیٹا دیکھ کر وہ بولا)

اچھی بات ہے انسان کو اپنی اوقات کا پتا ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔

(وہ کچھ بولی نہیں چوپ چاپ لیٹ گئی ۔موصب نے لاہٹ اوف کردی ۔لائٹ کہ بند ہوتے ہی اسکی آنکھ سے آنسو نکل گئےجنھیں وہ کب سے روکے ہوئے تھی۔۔یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا ۔)

ساری رات آنکھوں میں گزار دی اس نے فجر کی آزان کی اواز آئی تو وہ اٹھی اور وضو کر کے نماز پڑھنے لگئ۔ دعا کے لیے جب ہاتھ اٹھائے تو آنسو خودباخود نکلنے لگے ۔ )

میں کیا کرو میرے اللہ مجھے راستہ دیکھا ، کچھ سمجھ نہیں آرہا ،ہر راستے پر اندھیرا ہے ۔کوئی روشنی کی کرن تک نظر نہیں آرہی ۔ (وہ روتے روتے سجدے میں ہی گر گئی ۔تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر بولی)+

آپ نے اسے میرا نصیب بنایا ہے نا تو میں آپ کی رضا میں راضی ہوں کیونکہ آپ نے ہی تو فرمایا کہ

ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے ۔ہوگا وہی جو میری چاہت ہے ۔مگر تو اپنی چاہت کوبھی قربان کردے گا اس پہ جو میری چاہت ہے تومیں تجھے وہ بھی عطا کردوں گا جو تیری چاہت ہے۔

تو بس میں آپ کی رضا پر قربان کرتی ہوں سب کچھ سب مجھے سابت قدم رکھنا میرے رب ۔۔۔۔۔

(دعا کہ بعد وہ اٹھی ۔اب اسے کوئی فکر ،کوئی غم نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے رب کی مرضی پر راضی تھی اور جب بندہ اپنے رب کی کی رضا میں راضہ ہوتا ہے تو وہ پرسکون ہوجاتا ہے ۔اسے کوئی غم نہیں رہتا ۔

آج ہم اتنے بے سکون اس لیے ہی ہیں کیونکہ ہم اپنی خواہشوں کہ پہچھے بھاکتے ہیں اور جب کوئی چیز جو ہمیں پسند ہوتی ہے اور ہمیں نہیں ملتی تو بجائے صبر کرنے کہ ہن شکوہ کرنے لگ جاتے ہیں ۔یہ سوچے بغیر کہ اس میں ہمارے لیے کوئی شرہوگا جس سے اللہ نے ہمیں بچالیا ۔ہمیں تو شکر گزار ہونا چایئے اور ہم ناشکری کرتے ہیں )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح وہ کمرے سے باہر آئی لاونج میں بس بیٹھے تھے ۔)ارے بہو ۔۔آو بیٹا اندر آو۔۔۔۔(تیمور صاحب بولے ۔وہ اندر آگئی ۔۔۔اور امنا بیگم کہ پاس بیٹھ گئی ۔۔۔) موصب نہیں آیا تمہارے ساتھ ۔۔(آمنہ بیگم نے پوچھا تو وہ بولی) وہ سو رہے ہیں ۔میں نے اٹھایا تھاا مگر گہری نیند میں تھے ۔۔(صفائی سے چھوٹ بول دیا اس نے )

اچھا اچھا ۔۔۔(وہ مسکرانے لگیں )

چلیں تو پھر ناشتہ لگواہیں بھئی بہت تیز بھوک لگی ہےموم۔ (شاہ رخ بولا جو موصب کا چھوٹا بھائی تھا)

(تیمور صاحب نے دوشادیاں کیں تھیں ۔ایک موصب کی ماں تھیں جو کہ موصب کی پیدائیش کے ایک سال بعد ہی اللہ کو پیاری ہوں گئیں ۔دوسری شادی تیمور صاحب نے آمنہ سے کی جن کا بیٹا شاہ رخ تھا ۔آمنہ بہت اچھی تھیں کبھی موصب اور شاہ رخ میں فرق نہیں کیا مگر موصب ہمیشہ ان سے دور ہی رہتا تھا کبھی کبھی ہی ان سے بات کرتا تھا ۔مگر شاہ رخ میں اس کی جان تھی ۔اپنے چھوٹے بھائی کو وہ بہت چاہتا تھا اور شاہ رخ بھی موصب پر جان دیتا تھا ۔ موصب تھوڑا کم گو تھا اور اپنی غصیلی طبیت کی وجہ سے الگ ہی رہتا تھا ۔ تیمور صاحب بھی ڈاکٹر تھے اور آمنہ بھی ڈاکٹر تھیں ،شاہ رخ بھی ڈاکٹر بن رہا تھا اور ہاوس جوب وہ موصب کہ ہوسپیٹل میں ہی اسٹارٹ کرنے والا تھا ۔)

سب ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھنے والے تھے کہ موصب اوپر سے اترتا ہوا آیا ۔ وہی مغرور چال ،ایک ہاتھ میں بینڈس ،ایک ہاتھ میں گھڑی ،گلے میں لاکٹس لٹک رہے تھے ،اس کے لمبے بال جو کہ اس نے باندھے ہوئے تھے ،بلیک پینٹ پر بلیک ہی ٹی شرٹ پہنے ایک ہاتھ میں لیب کوٹ لیے وہ اترا تو آمنہ بہت پیار سے بولیں ۔)

آو بیٹا اچھے وقت پر آگئے ۔سب ایک ساتھ ناشتہ کرلیں گے ۔آجاو شاباش ۔۔۔۔

ڈیڈ میں ہوسپیٹل جارہا ہوں ۔۔۔۔(آمنہ کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ تیمور سے بولا جو کہ وہ ہمیشہ کرتا تھا۔۔۔یہ بات وہاں بھیٹے لوگوں کہ لیے نئی نہیں تھی مگر تصبیہا کہ لیے یہ اجیب تھا ۔)

بیٹا ناشتہ تو کرلو ۔۔۔۔(تیمور صاحب بولے تو اس نے ٹیبل کی طرف دیکھا جہاں آمنہ ،تصبیہا اور شاہ رخ موجود تھے ،اور بولا)

مجھے نہیں لگتا کہ یہاں میری ضرورت ہے ۔۔۔(لہجے میں تنز تھا جو سب نے محسوس کیا )

کسی باتیں کررہے ہو موصب ،اور یہ آج کہ دن تم کیوں جارہے ہو؟ ۔۔۔۔(تیمور صاحب اسے شادی کے پہلے دن ہی ہوسپیٹل جاتا دیکھ کر بولے )

کیوں آج کیا نیا ہے ؟ (الٹا اس نے سوال کردیا)

بھائی کل آپ کی شادی ہوئی ہے اور آپ آج جارہے ہیں ڈیس نوٹ فیر ۔۔۔(جواب شاہ رخ کی طرف سے آیا)

شادی ہوئی ہے تو کیا کروں بیوی کی پلو سے لگا رہوں ۔۔۔۔چلتا ہوں اللہ حافظ ۔۔(کہہ کر وہ روکا نہیں باہر چلا گیا اور وہ لوگ تصبیہا کو دیکھ رہے تھے ۔وہ شرمندہ تھے اس سے مگر تصبیہا نظریں جھوکائے نیچے دیکھ رہی تھی۔اسے پتا تھا کہ کس بات کاغصہ ہے موصب کو۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موصب رات کو گھر آیا تو سیدھا اپنے کمرے میں گیا ۔وہاں کوئی نہیں تھا ،پھر اسے تصبیہا کا خیال آیا ۔پورے کمرے میں دیکھنے کہ بعد بھی جب وہ نہیں ملی تو وہ کمرے سے نکل کر کچن میں گیا مگر وہ وہاں بھی نہیں تھی بس ایک ملازمہ تھی تو اس نے ملوزمہ سے ہی پوچھا )

تصبیہا کو دیکھا ہے تم نے؟(روب دار آواز میں پوچھا )

جی وہ ان کے والد آئے تھے تو وہ ان کہ ساتھ چلی گئیں ۔۔۔(اس نے ڈرتے ڈرتے بتایا )

موصب کہ ماتھے پر بل پڑگئے ،اس کا خون کھولنے لگا ،وہ اپنے کمرے میں جانے کہ لیے پلٹا ہی تھا کہ تصبیہا اندر آتی دیکھائی دی ۔تسبیہا کو دیکھ کر اس نےاپنی مٹھیاں بیچ لیں ۔آگے بڑھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھنچتا ہوا کمرے کی طرف چل دیا۔۔)

موصب میرا ہاتھ چھوڑو میں گر جاوگی ۔۔۔(تصبیہا اپنا ہاتھ چڑوا رہی تھی مگر اس نے بھی کمرے میں جاکر اسے دھکا دیا اور دروازہ زور سے بند کیا۔۔۔)

کہا گئیں تھیں ؟ (اس کی انکھیں سرخ ہورہی تھیں ،ماتتھے پر بل لیے ،غرارتے ہوئے اس نے پوچھا )

بابا کی طرف ۔۔۔۔۔(تسبیہا نے بغیر کوئی اسر لیے مختصر جواب دیا)

کس سے پوچھ کر گئی تھیں ؟(اگلا سوال اس نے کیا )

انکل سے ۔۔(اس نے تیمور صاحب کا بتایا )

تمہاری شادی مجھ سے ہوئی ہے یا انکل سے ہاں (وہ چیختے ہوئے بولا اور اس کا بازو جھٹکے سے پکڑا )

موصب ۔۔۔۔دماغ درست ہے تمہارا کیا کہہ رہے ہو۔۔۔(اس کی بات سن کر تصبیہا کو بھی غصہ آگیا تو وہ بھی چیختے ہوئے بولی)

موصب کو احساس ہوا کہ وہ غلط بات کہہ چکا ہے ۔۔۔۔ مگر تصبیہا پر ظاہر کیے بغیر بولا )

اگر آئیندہ مجھ سے پوچھے بغیر ایک قدم بھی باہر نکالا تو جان سے ماردوں گا ۔۔سمجھیں ۔۔۔۔(اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ وارن کررہا تھا ۔۔۔۔ )

میرا ہاتھ چھوڑو ۔۔۔۔(اس کی بات کا کوئی بھی جواب دیے بغیر وہ بولی ۔۔۔اس بات نے موصب کو اور غصہ دلا دیا اس نے تصبیہا کا ہاتھ اتنی زور سے دبایا کہ انگلیاں اس کہ گوشت میں پیوست ہوتی معلوم ہوئی ۔۔۔۔۔)

ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔مجھے درد ہورہا ہے ۔۔۔(تصبیہا چیخی تکلیف سے تو اسے تکلیف میں دیکھ کر اسے خوشی ہوئی ۔ اپنے چہرے کو اس کے چہرے کے قریب کرکے وہ بولا )

ابھی تو بہت سی تکلیفیں دیکھنی ہیں تمہیں ،یہ شروعات ہے ۔(کہہ کر اس نے تصبیہا کا ہاتھ چھوڑدیا اور چینج کرنے چلا گیا ۔)
تصبیہا اپنا ہاتھ سہلاتی رہ گئی۔) جنگلی انسان پتا نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو ۔۔۔۔(وہ غصے میں بولی بند دروازے کو دیکھ کر ۔)

اسے اس گھر میں آئے ایک ہفتہ گزر گیا ۔سب بہت اچھے تھے اس کے ساتھ ۔ )

آج چھٹی کا دن تھا تو سب ہی گھر میں تھے ۔موصب لاونج میں آکر بیٹھا اور ٹی وی آن کر کے نیوز دیکھنے لگا کہ کچن سے آتی تصبیہا کی آواز اس کا بلڈپریشر بڑھا رہی تھی ۔ وہ جس مقصد کے لیے اسے یہاں لایا تھا وہ تو پورا نہیں ہورہا تھا ۔وہ تو ہنس رہی تھی ،خوش تھی۔اسے اپنا پلین فیل ہوتا نظر آرہا تھا ۔ تو اس نے اپنا دماغ چلانا شروع کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے سب ناشتہ کررہے تھے جب شاہ رخ بولا )

ڈیڈ آج کہی باہر چلنے کا پلین بنایں ۔اتنے دنوں بعد تو سب ایک ساتھ گھر پر ملے ہیں ۔ورنہ کبھی اپ نہیں ہوتے ،کبھی موم نہیں ہوتیں تو کبھی بھائی نہیں ہوتے۔۔۔۔کیوں بھائی ٹھیک کہہ رہا ہوں نا میں ؟ (اس نے کہہ کر موصب سے تصدیق چاہی)

ہمممم (اس بس ہمم کہنے پر اکتیفا کیا )

آپی آپ کیا کہتی ہیں ۔(موصب کا پہیکا سا جواب سننے کہ بعد اس نے تصبیہا سے رائے چاہی۔وہ تصبیہا کو آپی کہتا تھا )

بابا سے پوچھو جیسا وہ کہنیں ۔۔۔۔(اس کے بابا کہنے پر موصب کو جھٹکا لگا اس نے جھٹ تصبیہا کی طرف دیکھا ۔آنکھوں کی تپیش محسوس ہوئی تو تصبیہا نے موصب کی طرف دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔آنکھوں میں غصہ اور نفرت تھی۔تصبیہا نے نظریں گھمالیں ۔)

چلو آج ڈنر سب باہر ایک ساتھ کریں گے مگر جگہ تصبیہا کی پسند کی ہوگی ۔۔۔۔(تیمور نے بہت پیار سے کہا تو موصب کہ تن 

بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔۔تصبیہا نے فتہحانہ مسکراہٹ موصب کی طرف اوچھا لی ۔ تو موصب نے مٹھیاں بینچ لیں ۔)

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈنر سے واپس آکر تصبیہا بہت تھک گئی تھی ۔اس لیے وہ چینج کر کہ صوفے پر سونے کے لیے لیٹ گئی ۔تبھی موصب اندر ایا اور اسے لیٹا دیکھ کر وہ اس کی طرف برھا اور چادر کھنچ کر اتاری اور اس کو جھٹکے سے اٹھایا ۔ تھکن اور نیند کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں ۔ لٹین اس کے چہرے پر آرہی تھیں ۔وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی مگر موصب پر کوئی اثر نہیں ہوا۔۔۔)

تم سمجھتی کیا ہو خود کو ہاں ۔میرے گھروالوں کو اپنے قابو میں کرلو گی ۔بھول ہے تمہاری ۔۔۔(وہ غصۓ سے بولا ۔وہ تصبیہا کہ بہت قریب تھا اس کی سانسوں کی گرمائیش تصبیہا کو اپنے چہرے پر محسوس ہورہی تھی ۔ تصبیہا کا سانس روک گیا اسے اپنے اتنا قریب دیکھ کر اگلے ہی لمحے خود پر قابو پاکر اس نے موصب کو دھکا دے کر دور کیا اور غصے سے بولی ) دور رہ کر بات کیا کرو مجھ سے ۔آنیندہ میرے قریب مت آنا (انگلی اٹھا کر اسے غصے سے بولی )

اور مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کسی کو قابو کرنے کی،نا ہی میرا ایسا کوئی ارادہ ہے سمجھے ۔۔۔۔اب جاو یہاں سے۔(اسے کہہ کر اپنی چادر اٹھائی اور سونے لیٹ گئی ۔موصب اسے دیکھتا رہ گیا ،اس کی جگہ کوئی اور ہوتی تو ڈر جاتی مگر یہ تو۔۔۔۔۔۔ وہ خون کے گھوٹ پی کر رہ گیا ۔۔)

(ڈر تو وہ بھی گئی تھی آخر لڑکی تھی مگر وہ موصب کے سامنے کمزور نہیں بناچاہتی تھی ۔ وہ اس کہ ساتھ رہ رہی تھی اسے قبول بھی کرچکی تھی مگر اپنی تذلیل برداشت نہیں کرسکتی تھی۔اور نہ ہی کرنا چاہیے ورنہ لوگ آپ کو ویسے ہی ٹریٹ کرنے لگ جاتے ہیں ۔)

   1
0 Comments